Description
ی کوشش کی گئی۔ جب یہ ماڈل ناکام ہوا تو کچھ گروہوں نے چینی انقلاب کی حکمت عملی کو اختیار کرلیا، جو بنیادی طور پر کسانوں پر مبنی دیہی گوریلا جنگ اور محاصرے کے ذریعے شہروں کو فتح کرنے کی حکمت عملی تھی۔مگر حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی سماجی، معاشی اور سیاسی ساخت نہ روس سے مماثلت رکھتی تھی اور نہ چین سے۔ پاکستان ایک ایسا ملک تھا جہاں نوآبادیاتی ریاستی ڈھانچے نے اپنی جڑیں گہری کرلی تھیں، جاگیرداری اور سرمایہ داری کا ایک پیچیدہ امتزاج موجود تھا، اور جہاں عالمی سامراجی نظام کے ساتھ گہرے تعلقات قائم تھے۔نتیجہ یہ نکلا کہ روسی اور چینی ماڈلز، بغیر مقامی حالات کی سائنسی تحقیق اور سماجی تضادات کی گہری تفہیم کے، یہاں ناقابلِ عمل ثابت ہوئے۔
اب، جب کہ دنیا بھر کے انقلابات کی ناکامیوں، دیوارِ برلن کے انہدام، سویت زوال، چینی ریاست کے سرمایہ دارانہ ارتقا، اور نیو لبرل عالمی نظام کے مظالم کو ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ہے، اب وقت آ چکا ہے کہ ہم پاکستانی سماج کی مخصوص نوآبادیاتی، نیم سرمایہ دارانہ، اور نیم جاگیردارانہ ساخت کا سائنسی مارکسی تجزیہ کریں۔ ہمیں ایک ایسی حکمت عملی تشکیل دینی ہوگی جو پاکستانی سماج کے حقیقی تضادات کو سمجھ کر ابھرتی ہو، نہ کہ کسی دوسرے ملک کے تجربات کی نقل ہو۔ہمیں بائیں بازو کی سیاست کو دوبارہ زندہ کرتے ہوئے ایک ایسا انقلابی پروگرام تشکیل دینا ہوگا جوطبقاتی جدوجہد کو مرکزی مقام دے،مقامی ثقافت اور سماجی نفسیات سے جڑتا ہو،نیو لبرل سرمایہ داری کی موجودہ شکلوں اور تضادات کو درست طریقے سے سمجھ کر ان کا توڑ فراہم کرےNاور سب سے بڑھ کر یہ کہ عوام کے اندر جڑیں بنانے پر مبنی ہو، نہ کہ مہم جوئی (ایڈونچرازم) یا محض نمائشی احتجاجی سیاست پر۔
یہی وہ بنیادی اصول ہیں جو ماؤزے تنگ نے اپنے ابتدائی دنوں میں اپنائے تھے”عوام ہی وہ سمندر ہیں جس میں انقلابی مچھلیاں تیر سکتی ہیں۔”ماؤ نے بار بار تاکید کی تھی کہ انقلابی حکمت عملی ہمیشہ مقامی سماجی تضادات کی بنیاد پر تیار کی جائے، اور کسانوں، مزدوروں اور محروم طبقات کو براہ راست اپنی قوت کا مرکز بنایا جائے۔ یہی سچائی آج پاکستان کے لیے بھی لازمی ہے۔تو سوال یہ ہے: کیا ہمیں اب اس عمل کا آغاز کرنا چاہیے یا ابھی مزید انتظار کرنا چ
Reviews
There are no reviews yet.