Description
یہاں یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ 22دسمبر 1939ء کو مسلمانانِ ہند نے کانگریسی حکومت کے خاتمے کی خوشی میں قائداعظم کی اپیل پر نہایت جوش و خروش سے یومِ نجات منایا۔ اس موقع پر گلبرگہ کے مسلمانوں نے ایک ٹیلی گرام گاندھی جی کو ارسال کیا جس کے الفاظ تھے ’’یومِ نجات کی تہنیت۔۔۔ قائداعظم زندہ باد‘‘۔ گاندھی جی کانگریسی حکومتوں کے خاتمے پر ویسے ہی چراغ پا تھے، یہ ٹیلی گرام ملتے ہی اور بھڑک اُٹھے۔ انہوں نے 16جنوری 1940ء کو قائداعظم کی خدمت میں ایک خط ارسال کیا جس کے آغاز پر محمد علی جناح کے بجائے محترم قائداعظم لکھا اور پھر خط میں وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’’کسی ہندوستانی کے نام کے آگے ’’مسٹر‘‘ تحریر کرنا مجھے پسند نہیں اور یہ غیر موزوں بھی ہے، اس لیے حکیم صاحب مرحوم (حکیم محمد اجمل خان) کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق میں آپ کو ہمیشہ ’’جناح صاحب‘‘ کے الفاظ سے مخاطب کرتا رہا ہوں، لیکن امت السلام (گاندھی جی کی ایک داسی) نے مجھ سے کہا کہ لیگی حلقوں میں آپ کو قائداعظم کہہ کر مخاطب کیا جاتا ہے۔ اور اب یہ ٹیلی گرام دیکھ کر جو گلبرگہ سے وصول ہوا ہے اس کی مزید تصدیق ہوتی ہے۔ مجھے امید ہے کہ آپ باور کریں گے کہ جو کچھ میں نے کیا ہے وہ نیک نیتی کے ساتھ اور آپ کی خاطر کیا ہے۔ اگر آپ چاہیں کہ میں کسی دوسرے القاب سے آپ کو مخاطب کروں تو بہرحال اس کی بھی تعمیل کی جائے گی‘‘۔ گاندھی جی کے اس خط کا جواب قائداعظم نے 21جنوری 1940ء کو دیا۔ قائداعظم نے اپنے خط میں دیگر اُمور پر روشنی ڈالنے کے علاوہ اس خطاب کے استعمال کے بارے میں لکھا کہ: ’’القاب کی اہمیت ہی کتنی ہوتی ہے۔ گلاب کو خواہ کسی بھی نام سے یاد کیا جائے، اس کی خوشبو بہرحال باقی رہے گی۔ اس لیے میں اس معاملے کو آپ کی مرضی پر چھوڑتا ہوں اور اپنی کسی رائے کا اظہار نہیں کرتا۔ البتہ میری سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ آپ اس کے لیے اتنے پریشان کیوں ہیں! بہرحال مجھے معلوم ہوا ہے کہ جو خطاب اس وقت آپ استعمال کررہے ہیں وہ حکیم صاحب مرحوم کے بتائے ہوئے ہیں، لیکن تعجب کی بات یہ ہے کہ حکیم صاحب کی زندگی میں بھی اور ان کے انتقال کے بعد بھی ایک عرصے تک آپ نے مجھے مسٹر ہی کے لفظ سے مخاطب کیا ہے، اس کے بعد سے حال تک آپ نے مجھے ’’شری‘‘ کے لقب سے مخاطب کیا ہے لیکن اس ضمن میں زیادہ تردد اور فکر کی حاجت نہیں‘‘۔
Reviews
There are no reviews yet.