Description
عرض مولف
ہندو فلسفے کا مطالعہ صرف فلسفے کے طالب علموں اور تہذیب انسانی کے عروج و ارتقاء میں دلچسپی رکھنے والے علماء کی ہی توجہ اپنی جانب مبذول نہیں کراتا بلکہ وہ ایک زندہ اور ترقی آشنا قوم کے روحانی اور سماجی نظریات کا پس منظر ہونے کے لحاظ سے ایک عام قاری کے لیے بھی واضح افادیت کا مالک ہے۔ ہندو فلسفے کے مطالعے سے ہمیں ایک ایسی لچک دار رنگا رنگ اور روادارانہ تہذیبی روایت کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے جس کا بنیادی رجحان مختلف النوع عناصر میں ہم آہنگی اور توازن پیدا کرتا رہا ہے۔ ہم آہنگی اور یک جہتی کے اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے یہ نہایت ضروری ہے کہ کسی تہذیبی اشتراک میں شامل سماجی گروہ ایک دوسرے کی روایات اور نظریات کو واضحطور پر سمجھنے کی کوشش کریں کیونکہ سماجی معاملات میں تعصب، تنفر اور گریز کی بنیاد بسا اوقات دوسرے سماجی گروہوں کی تہذیبی روایات اور نظریات کے بارے میں کم علمی یا لا علمی پر ہوتی ہے۔ عام حالات میں لاعلمی ایک قسم کی ذہنی دوری کا سبب بنتی ہے اور کاجی معاملات میں یہ دوری جلد ہی مغائرت کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔
لہٰذا اس کی ضرورت باقی رہتی ہے کہ ہندو فلسفہ مذہب اور کاجی نظام کا ایک ایسا تعارف پیش کیا جائے جس سے ہندو فکر عمل کے بنیادی رحجانات کا علم ہو سکے اور ان پہلوؤں سے واقفیت پیدا ہو سکے جن پر ہندو سماجی نظام مبنی ہے۔ کیونکہ روئے سخن عام قارئین کی جانب ہے اس لیے اس تعارف کو حوالوں، اقتباسات اور علمی مباحث سے بو جھل کرنا موزونیت نہیں رکھتا۔ ظاہر ہے جو قارئین ہندو فکر و فلسفے کے کسی پہلو کا خصوصی مطالعہ کرنا چاہتے ہیں۔ ان کے لیے یہ تعارف ناکافی ہو گا۔ اسی طرح جن قارئین کی توجہ صرف بعض رسوم و اشکال پر ہے یا ان کے پیش نظر ہندو سماج کے چند مخصوص افراد کے افعال کردار یا معتقدات ہیں، وہ بھی اس تعارف سے تشفی حاصل نہیں کر سکیں گے۔ یہاں یہ بات ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ کسی بھی روحانی نظریے
یا کاجی نظام کو سمجھنے کے لیے ہمیں سب سے پہلے اس کے بنیادی نقطہ نظر اس کی روح اور اس کے معین کیے ہوئے مرکزی سلسلہ اقدار اور آدرشوں پر توجہ دینی چاہیے۔ محض چند افراد کے فعل و کردار کا مشاہدہ کر کے ہم اس نظام کی اصل روحتک پہنچ جانے کا ہمیشہ دعوی نہیں کر سکتے کیونکہ افراد تو اپنی نجی زندگی انفرادی صلاحیتوں اور تاریخی حالات کی حدود میں ہی رہ کر فعل کی مقدرت رکھتے ہیں۔ لہذا بسا اوقات افراد کے افعال سے کسی نظام کے نقائص کے بارے میں رائے زیادہ آسانی سے قائم کر لی جاتی ہے بجائے اس کے کہ اس نظام کی خوبیوں کے بارے میں کوئی واضح نقشہ مرتب کیا جا سکے۔
اس تعارف میں بھی اسی لیے ہندو عقیدے اور رواج کی مخصوص اشکال کو بحث میں لانے کی بجائے ہندو فلسفہ مذہب اور سماجی نظام کے پس پشت کام کر رہے رحجانات کو واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ہندو تہذیب کو ایک سادہ اور غیر پیچیدہ تنظیم کی شکل میں سمجھنا نہایت دشوار ہے اور اسی لیے اس کی کوئی ایسی تعبیر بھی بڑی مشکل ہے جو اس مختلف رحجانات اور تحریکات کے ساتھ پورا پورا انصاف کر سکے یہ کام بغیر کسی ان رہنما کی ہدایت کے ممکن نہیں ہو سکتا جس نے ہندو فکر و فلسفے کا گہرائی سے مطالعہ کیا ہو اور جو ہندو تہذیب کے تاریخی پہلوؤں اور اس کے سماجی نظام سے کما حقہ واقفیت رکھتا ہو۔ اس سلسلے میں دور حاضر کے مفکرین میں ڈاکٹر ایس، رادھا کرشنن سے بہتر رہنمائی کسی اور سے حاصل نہیں ہو سکتی۔ یہ تعارف بھی نظریات اور راہوں کے لیے پوری طرح ہندو نظریہ حیات پر ڈاکٹر رادھا کرشنن کے نظریات اور رایوں پر مبنی ہے۔ ہندوستان کے اس عظیم مفکر کے لیے سب سے بڑا خراج عقیدت میں ہو گا کہ ہندو فکر و عمل میں موجود ہم آہنگی کے رحجان کو اس ملک میں فروغ کے پورے امکانات پیدا ہوں اور مختلف زاویہ ہائے نظر اور نظریات زندگی کی جانب ہو روانہ اور روادارانہ رویہ ایک زندہ اور فعال شکل میں آج کی ہندوستانی سوسائٹی کا بھی امتیازی وصف بن سکے۔
ڈاکٹر سید حامد حسین
Pages 88
Reviews
There are no reviews yet.